FLOOD IN PAKISTAN 2010
   
  RIZWAN ALI SIDDIQUI
  ZAHER UD DIN BABAR
 
 ZAHER UD DIN BABAR

 

 

صاحبِ کتاب حسن بیگ نا مساعد سیاسی حالات کے سبب کراچی چھوڑ کر سکاٹ لینڈ میں بس گئے ہیں

برصغیر ہندوستان مشرق، شمال اور شمال مغرب میں پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور باقی حصہ خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے۔ کہا جاتا ہے کہ ریلوے انجن اور دخانی جہاز کے آنے تک ہندوستان دو بین الاقوامی تجارتی راستوں کے درمیان واقع تھا: شمال میں چین سے مغربی ایشیا تک ریشم کی تجارت کا راستہ اور جنوب میں جنوب مشرقی ایشیا سے بحیرہ روم کے ملکوں تک مسالوں کی تجارت کا راستہ۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سرزمین کا واسطہ جن حملہ آور فاتحین سے پڑا وہ پہلے شمال مغرب کے پہاڑوں سے اور پھر مغرب، مشرق اور جنوب کے ساحلوں سے وہاں پہنچے تھے۔ 1483میں وسط ایشیا کے مقام فرغنہ میں جنم لینے والے بابر نے اپنے ازبک دشمنوں سے فرار حاصل کرتے ہوئے پہلے کابل میں اپنی حکمرانی قائم کی اور پھر ہندوستان پر یکے بعد دیگرے پانچ حملے کر کے آخرکار دہلی کی سلطنت کا قبضہ حاصل کیا۔ پچاس برس سے بھی کم عمر میں آگرہ میں وفات پانے سے پہلے بابر نے ہندوستان میں اس سلطنت کی بنیاد رکھی جو رسمی طور پر 1857میں اس سلسلے کے آخری تاجدار بہادر شاہ کی معزولی پر ختم ہوئی۔

اس سلطنت کی کہانی بے حد مسحورکن اور عبرت انگیز ہے۔ لیکن ہندوستان کے انگریزی ادیب امیتابھ گھوش نے ایک اور اہم حقیقت کی طرف یوں توجہ دلائی ہے: ’تاریخ کے طویل تناظر میں دیکھیں تو مغل دورِحکومت دراصل خوش نصیبی کے ایک نادر وقفے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ایک عظیم الشان فریب نظر جس کا انجام اس کے آغاز سے بھی پہلے متصور کیا جا چکا تھا۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ جس وقت بابر گنگا اور سندھ کے دوآبے میں اپنی عظیم جنگیں لڑ رہا تھا، اس وقت برصغیر کی قسمت کا فیصلہ اس سے بہت کم شدت کی ان لڑائیوں میں ہو رہا تھا جن میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر حکران دیسی راجہ حملہ آور پرتگیزیوں سے نبردآزما تھے۔ ... جس وقت بابر دہلی کے تخت پر بیٹھا اس وقت تک پرتگیزی مغربی ساحل پر گوا میں ایک بڑی نوآبادی قائم کر چکے تھے‘۔

امیتابھ گھوش کو یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ بابر کی خودنوشت سوانح (’بابرنامہ‘) میں پرتگیزیوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔ چونکہ بابر نے اپنی زندگی میں کبھی سمندر نہ دیکھا تھا، اس سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بحری طاقت کی اہمیت کا اندازہ کر سکتا ہو گا جو جدید ہندوستان کی تقدیر رقم کرنے والی تھی۔

 


لیکن اس تجزیے سے ایک تاریخی دستاویز اور ذاتی بیانیے کے طور پر ’بابرنامہ‘ کی انفرادیت اور اہمیت قطعاً کم نہیں ہوتی۔ یہ بات ہمیشہ حیرت کا باعث رہی ہے کہ بارہ برس کی عمر میں حکمران بننے کے بعد اپنی پوری زندگی مہمات اور فتوحات میں گزارنے والے بابر کو اپنی زندگی کے واقعات تحریر کرنے کا وقت کیسے ملا اور کس بات نے اسے ایسا کرنے پر اکسایا ہو گا۔ اپنی زندگی میں اس کا واسطہ جن افراد سے پڑا، ان کے بارے میں اس کی صاف گو رائے کے اظہارسے یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ اسے توقع نہ تھی کہ اس کی یادداشتیں زیادہ لوگوں کی نظر سے گزریں گی۔

بابر نے اپنی زندگی کے ان واقعات کو،جب جب وقت ملا، اپنے زمانے کی علمی زبان فارسی میں نہیں بلکہ اپنی گھریلو زبان مشرقی ترکی میں تحریر کیا۔

عبدالرحیم خان خاناں نے اس کا فارسی ترجمہ ’واقعات بابری‘ کے عنوان سے کیا۔ اردو میں اس خودنوشت کے دو ترجمے، مرزا نصیرالدین حیدر اور رشید اختر ندوی کے کیے ہوئے، ’تزک بابری‘ کے عنوان سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں اسے ’بابرنامہ‘ کے عنوان سے سرے کی رہنے والی ’بڑی بی‘ اینیٹ بیورج نے ’اپنے قلعے میں بیٹھ کر خود کو ترکی پڑھاتے ہوئے‘ منتقل کیا اور یہ ترجمہ چار حصوں میں 1912سے 1921تک شائع ہوا۔ ’بابرنامہ‘ کا تازہ ترین انگریزی ترجمہ وِیلرایم تھیکسٹن نے 1993میں کیا جسے رومن ترکی متن اور خان خاناں کے فارسی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا۔

1995میں ناسازگار سیاسی حالات کے باعث کراچی چھوڑ کر سکاٹ لینڈ جا بسنے والے حسن بیگ کی مرتب کی ہوئی اردو کتاب ’وقائع بابر‘ حال ہی شائع ہوئی ہے جس میں مذکورہ بالا تمام مصادر سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ اردو زبان میں شاید ہی کوئی تاریخی متن ہو گا جسے اس قدر اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہو۔ وقائع کا اردو ترجمہ دہلی میں فارسی کے استاد یونس جعفری نے خان خاناں کے فارسی ترجمے سے کیا، لیکن متن کے تفصیلی حواشی بے شمار کتب خانوں اور تاریخ دانوں سے رجوع کرکے حسن بیگ نے تیار کیے۔’بابرکی دنیا‘ اور ’بابری ہند‘ سے لے کر ’آج کا وسطی و جنوبی ایشیا‘ تک آٹھ نقشے ، ایک کارآمد اشاریہ اور ماخذوں کی فہرست بھی کتاب کا حصہ ہے۔

 

صرف اتنا ہی نہیں، حسن بیگ نے زمانہ حال کے ازبکستان، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کا تفصیلی سفر کر کے نہ صرف وہاں کے کتب خانوں، کتب فروشوں، کتاب داروں اور عالموں سے ملاقاتیں کیں بلکہ ہر اس مقام کا دورہ کیا جس کا ذکر بابر کی یادداشتوں میں ملتا ہے اور جہاں جانا ان کے لیے ممکن ہوا۔ اس سفر کا حاصل نہ صرف ان تمام جگہوں پر کھینچی گئی تصویریں ہیں جو کتاب میں موزوں مقامات پر شامل ہیں بلکہ ’بابر کی تلاش میں‘ کے عنوان سے ضمیموں والے حصے میں شائع کیے جانے والے مضامین بھی ہیں۔

شگفتگی کے انداز میں تحریر کیے گئے یہ مضامین بابرکی زندگی اور یادداشتوں سے متعلق بہت سی مفید معلومات تو فراہم کرتے ہی ہیں، اس کے علاوہ ان میں حسن بیگ نے اپنے مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے بارے میں بے تکلفی سے تبصرے بھی کیے ہیں۔ مثلاً اورینٹل انسٹی ٹیوٹ، تاشقند، کے بارے میں کہتے ہیں: ’یہاں کے ڈائرکٹر... صاحب لندن پلٹ ہیں لیکن ابھی ان کو اس حقیقت سے آگاہی نہیں کہ کتب خانوں کی عزت و شہرت مخطوطوں کو طالبوں کو دکھانے میں ہے چھپانے میں نہیں‘۔ کابل کے کتب فروشوں کے ضمن میں ان کا کہنا ہے: ’سب سے مشہور دکان شاہ محمد صاحب کی ہے۔ شاہ صاحب کتاب تو بیچتے ہیں لیکن ساتھ کھال بھی کھینچتے ہیں‘۔

ایک اور اختراع حسن بیگ نے یہ کی ہے کہ ان میں سے ہر مضمون کے شروع میں اپنی ایک پورے قد کی تصویر شائع کی ہے جس میں انہوں نے متعلقہ علاقے کا لباس زیب تن کر رکھا ہے۔ وہ خوش وضع اور جامہ زیب آدمی ہیں، اس لیے یہ اختراع پڑھنے والے کو خوشگوار ہی محسوس ہوتی ہے۔ پھرغالباًحسن بیگ بھی، اپنے ممدوح بابر کی طرح، گورگانی ہیں، چنانچہ پڑھنے والا بابر کی شکل و سراپا کو ان پر قیاس کر سکتا ہے۔

بہرکیف، تاریخ کی تحقیق کا جو گہرا شغف اس کتاب سے عیاں ہوتا ہے وہ ہمارے یہاں کمیاب ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔

 

 
   

 

  This website was created for free with Own-Free-Website.com. Would you also like to have your own website?
Sign up for free